عبادی اسلام میں قیادت
قرآن تمام اسلامی فقہ کی بنیاد ہے، مختلف تشریحات اور عقائدکے نتیجہ میں مختلف مکاتب فکر وجود میں آئے ۔ حضرت محمد ۶۳۲سن عیسوی میں وفات پاجانے کے بعد ان کے پیروکاراتفاق نہ کر پائے کہ آیا ان کےجانشینوں کو خونی رشتہ کی بناء پر یا اہسے رینماوں کو منتخب کیا جائےیا اس کو جوکہ سب سے زیادہ ممکنہ طور پر عقیدہ کی تعلیمات پر عمل کرے گا ۔
سنی شاخ دعوا کرتی ہےکہ پہلے چار خلفاء (محمد کے جانشین ) انہوں نےجائیز طریقعہ سے مسلمانوں کے رہنماؤں کے طور پر ان کی جگہ لی۔ وہ چار خلفاء کے ورثاء کومذہبی رہنماؤں کے طور پر تسلیم کرتے ہیں انہوں نے پیغمبر کے مشیرکو چنا کہ وہ اسکاپہلا جانشین یا خلیفہ بننے مسلم ریاست کی قیادت کرنےکے لئے ، سنی امام ہمیشہ نبی محمدکے قریش کے قبیلہ کے ممبران میں سے منتخب کر تے ہیں.
اس کے برعکس شیعہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ صرف چوتھےخلیفہ علی(محمد کے چچا زاد بھائی اور دماد ) کے ورثا محمد کے جائز جانشیں ہین ۔مگر عبادیوں کے
لئےامام کی نسبت سے اسکے شجرہ نسب
کی کوئی اھمیت نہیں ہے عبادیوں کا موقف ہےکہ ہر وفادار اور مذہبی طور پر تعلیم
یا فتہ مسلمان کو اس منصب کے لئے ایک ممکنہ امیدوارہےار وامام کے طور پر منختب کیا جا سکتا ہے امام تمام حکومتی طاقت
کے ساتھ ایک مذہبی اور سیکولر رھنما ہے عبادیون کی نظروں میںٌ وہسب یکسانیت رکھنےوالوں میں سے اول ہےٌٌ۔ صرف اسی طرح سےجس طرح سےکہ خدا کی آنکھوں کے سامنے انسان سب سے اولین ہے ۔
مرکزی متن حصہ دوم